اس نے سوچا بھی نہیں تھا کبھی ایسا ہوگا
دل ہی اصرار کرے گا کہ بچھڑنا ہوگا
کشتیاں ریت پہ بیٹھی ہیں امیدیں باندھے
ایسا لگتا ہے یہ صحرا کبھی دریا ہوگا
اک اداسی مری دہلیز پہ بیٹھی ہوگی
ایک جگنو مرے کمرے میں بھٹکتا ہوگا
تم نے وہ زخم دیا ہے مری تنہائی کو
جو نہ آسودۂ غم ہوگا نہ اچھا ہوگا
چاند جس رات نہ نکلا تو گماں گزرا ہے
وہ یقیناً ترے آنگن میں چمکتا ہوگا
اپنا سر کاٹ کے نیزے پہ اٹھائے رکھا
صرف یہ ضد کہ مرا سر ہے تو اونچا ہوگا
غزل
اس نے سوچا بھی نہیں تھا کبھی ایسا ہوگا
صدیق مجیبی