اس نے خود فون پہ یہ مجھ سے کہا اچھا تھا
داغ بوسہ وہ جو کندھے پہ ملا اچھا تھا
پیاس کے حق میں مرے ہونٹ دعا کرتے تھے
پیاس کی چاہ میں اب جو بھی ملا اچھا تھا
نیند بل کھاتی ہوئی آئی تھی ناگن کی طرح
کاٹ بھی لیتی اگر وہ تو بڑا اچھا تھا
یوں تو کتنے ہی خدا آئے مرے رستے میں
میں نے خود ہی جو بنایا تھا خدا اچھا تھا
وہ جو نقصان کی مانند مجھے لگتا ہے
سچ تو یہ ہے کہ وہی ایک نفع اچھا تھا
دل کی تاریک سی گلیوں میں تمہاری آہٹ
اور آہٹ سے جو اک پھول کھلا اچھا تھا
جسم کو یاد کیا کرتی ہے اب روح مری
اور کہتی ہے کہ وہ باغ اما اچھا تھا
لوگ کہتے ہیں کہ وہ شخص برا تھا لیکن
دل تو کہتا ہے کہ وہ شخص بڑا اچھا تھا
غزل
اس نے خود فون پہ یہ مجھ سے کہا اچھا تھا
تری پراری