EN हिंदी
اس نے کر وسمہ جو فندق پہ جمائی مہندی | شیح شیری
usne kar wasma jo funduq pe jamai mehndi

غزل

اس نے کر وسمہ جو فندق پہ جمائی مہندی

مصحفی غلام ہمدانی

;

اس نے کر وسمہ جو فندق پہ جمائی مہندی
کیا ہی دلچسپ مجھے وہ نظر آئی مہندی

نہ رہا ایک بھی چور اس کے کہیں ہاتھوں میں
ایسی چترائی سے کافر نے لگائی مہندی

بیٹھے بیٹھے جو مزاج آ گیا رنگینی پر
گوندھ کر لالے کی پتی میں ملائی مہندی

اس نفاست کا میں کشتہ ہوں کہ اک تو اس نے
بنگلے پانوں سے ہاتھوں میں بندھائی مہندی

تس پہ کمبخت کی یہ دوسری سگھڑائی دیکھ
باندھ رومالوں سے بسمے کی بچائی مہندی

اور ہشیاری یہ سن سوتے سے جو چونک پڑا
کھول پھرتی سے وہیں جلد چھڑائی مہندی

بعد ازاں طاق سے اک چھوٹے سے شیشے کو اتار
عطر میں ہاتھوں سے مل مل کے بسائی مہندی

مصحفیؔ کیوں نہ دعا دیوے کہ اس کو تو نے
اک غزل اور بھی رنگین لکھائی مہندی