اس نے جو غم کیے حوالے تھے
ہم نے اک عمر وہ سنبھالے تھے
صحن دل میں تمہارے سب وعدے
میں نے بچوں کی طرح پالے تھے
آنکھ سے خود بہ خود نکل آئے
اشک ہم نے کہاں نکالے تھے
اک خوشی ایسے مسکرائی تھی
درد جیسے بچھڑنے والے تھے
اپنے ہاتھوں سے جو بنائے بت
ایک دن سارے توڑ ڈالے تھے
چار سو وحشتوں کا ڈیرا تھا
جان کے ہر کسی کو لالے تھے
اجنبی بن کے جو ملے تھے امینؔ
لوگ سب میرے دیکھے بھالے تھے

غزل
اس نے جو غم کیے حوالے تھے
امین اڈیرائی