اس نے ہمارے ہاتھ میں اک ہاتھ کیا دیا
کچھ دیر تو ہتھیلی پہ جلتا رہا دیا
میں اس کے انتظار میں کھوئی کچھ اس طرح
آنکھیں ہوئیں چراغ تو گھر تھا دیا دیا
آنگن میں جیسے ایک چراغاں سا ہو گیا
ایسا کہاں سے لائی تھی شب کو ہوا دیا
دل کی تمام رونقیں اس کے ہی دم سے تھیں
ڈوبا جو چاند ہم نے دیا ہی بجھا دیا
ہم چاہتے تھے ماہ درخشاں کو دیکھنا
اس نے ہمیں دریچے سے چہرہ دکھا دیا
وہ مدعا شناس تھا میرا کچھ اس طرح
کچھ سوچنے سے پہلے ہی یہ کہہ دیا، دیا
غزل
اس نے ہمارے ہاتھ میں اک ہاتھ کیا دیا
عائشہ مسعود ملک