EN हिंदी
اس نے دیکھا جو مجھے عالم حیرانی میں | شیح شیری
usne dekha jo mujhe aalam-e-hairani mein

غزل

اس نے دیکھا جو مجھے عالم حیرانی میں

فیصل عجمی

;

اس نے دیکھا جو مجھے عالم حیرانی میں
گر پڑا ہاتھ سے آئینہ پریشانی میں

آ گئے ہو تو برابر ہی میں خیمہ کر لو
میں تو رہتا ہوں اسی بے سر و سامانی میں

اس قدر غور سے مت دیکھ بھنور کی جانب
تو بھی چکرا کے نہ گر جائے کہیں پانی میں

کبھی دیکھا ہی نہیں اس نے پریشاں مجھ کو
میں کہ رہتا ہوں سدا اپنی نگہبانی میں

وہ مرا دوست تھا دشمن تو نہیں تھا فیصلؔ
میں نے ہر بات بتا دی اسے نادانی میں