EN हिंदी
اس نے افشاں جو چنی رات کو تنہا ہو کر | شیح شیری
usne afshan jo chuni raat ko tanha ho kar

غزل

اس نے افشاں جو چنی رات کو تنہا ہو کر

شاد لکھنوی

;

اس نے افشاں جو چنی رات کو تنہا ہو کر
آسماں ٹوٹ پڑا مجھ پہ ستارہ ہو کر

بھوکیں محلوں پہ نہ منعم سگ دنیا ہو کر
ہڈیاں قبر میں رہ جائیں گی چونا ہو کر

وہ جلے تن ہوں مرے پر بھی جو مٹی میں ملوں
گرد باد اٹھنے لگیں آگ بگولا ہو کر

مے کشی میں جو ہوا چشم خماری کا خیال
رہ گیا جام ہتھیلی کا پھپھولا ہو کر

شادؔ یہ عشق زنخداں میں ہے دل ڈالوں ڈول
کود پڑتا ہوں میں ہر چاہ میں اندھا ہو کر