اس نے افشاں جو چنی رات کو تنہا ہو کر
آسماں ٹوٹ پڑا مجھ پہ ستارہ ہو کر
بھوکیں محلوں پہ نہ منعم سگ دنیا ہو کر
ہڈیاں قبر میں رہ جائیں گی چونا ہو کر
وہ جلے تن ہوں مرے پر بھی جو مٹی میں ملوں
گرد باد اٹھنے لگیں آگ بگولا ہو کر
مے کشی میں جو ہوا چشم خماری کا خیال
رہ گیا جام ہتھیلی کا پھپھولا ہو کر
شادؔ یہ عشق زنخداں میں ہے دل ڈالوں ڈول
کود پڑتا ہوں میں ہر چاہ میں اندھا ہو کر
غزل
اس نے افشاں جو چنی رات کو تنہا ہو کر
شاد لکھنوی