EN हिंदी
اس نے آنے کا جو وعدہ کیا جاتے جاتے | شیح شیری
usne aane ka jo wada kya jate jate

غزل

اس نے آنے کا جو وعدہ کیا جاتے جاتے

مرزا آسمان جاہ انجم

;

اس نے آنے کا جو وعدہ کیا جاتے جاتے
دم مرا سینے میں رکنے لگا آتے جاتے

خاک میں مجھ کو جو تم نے نہ ملایا نہ سہی
لاش ہی میری ٹھکانے سے لگاتے جاتے

تیرے دیوانوں کا دیکھے تو کوئی جوش و خروش
سوئے محشر بھی ہیں اک شور مچاتے جاتے

ہم تو سمجھے تھے کہ نالوں سے تسلی ہوگی
یہ تو ہیں درد میں درد اور بڑھاتے جاتے

ساتھ لینا تھا ہمیں بھی تجھے او پیک صبا
ہم بھی ہمراہ ترے ٹھوکریں کھاتے جاتے

تم نے کاندھا نہ دیا لاش کو میری نہ سہی
ایک ٹھوکر ہی مری جان لگاتے جاتے

یوں نہ جانا تھا انہیں پاس سے اٹھ کر انجمؔ
کوئی آفت ہی مرے سر پہ وہ ڈھاتے جاتے