اس نے آنے کا جو وعدہ کیا جاتے جاتے
دم مرا سینے میں رکنے لگا آتے جاتے
خاک میں مجھ کو جو تم نے نہ ملایا نہ سہی
لاش ہی میری ٹھکانے سے لگاتے جاتے
تیرے دیوانوں کا دیکھے تو کوئی جوش و خروش
سوئے محشر بھی ہیں اک شور مچاتے جاتے
ہم تو سمجھے تھے کہ نالوں سے تسلی ہوگی
یہ تو ہیں درد میں درد اور بڑھاتے جاتے
ساتھ لینا تھا ہمیں بھی تجھے او پیک صبا
ہم بھی ہمراہ ترے ٹھوکریں کھاتے جاتے
تم نے کاندھا نہ دیا لاش کو میری نہ سہی
ایک ٹھوکر ہی مری جان لگاتے جاتے
یوں نہ جانا تھا انہیں پاس سے اٹھ کر انجمؔ
کوئی آفت ہی مرے سر پہ وہ ڈھاتے جاتے
غزل
اس نے آنے کا جو وعدہ کیا جاتے جاتے
مرزا آسمان جاہ انجم