اس میں رہ کر اس کے باہر جھانکنا اچھا نہیں
دل نشیں کے دل کو کمتر آنکنا اچھا نہیں
جس کی آنکھوں میں ہمیشہ بس ہمارے خواب ہوں
اس کی پلکوں پر اداسی ٹانکنا اچھا نہیں
اس کی خاموشی کو بھی سننا سمجھنا چاہیے
ہر گھڑی بس اپنی اپنی ہانکنا اچھا نہیں
ایک دن دل نے کہا جا ڈھانک لے اپنے گناہ
ہم نے سوچا آئنوں کو ڈھانکنا اچھا نہیں
پیار تو امرت ہے اس کے رس کا رس لیجے نوینؔ
بید کی بوٹی سمجھ کر پھانکنا اچھا نہیں
غزل
اس میں رہ کر اس کے باہر جھانکنا اچھا نہیں
نوین سی چترویدی