اس لمحے تشنہ لب ریت بھی پانی ہوتی ہے
آندھی چلے تو صحرا میں طغیانی ہوتی ہے
نثر میں جو کچھ کہہ نہیں سکتا شعر میں کہتا ہوں
اس مشکل میں بھی مجھ کو آسانی ہوتی ہے
جانے کیا کیا ظلم پرندے دیکھ کے آتے ہیں
شام ڈھلے پیڑوں پر مرثیہ خوانی ہوتی ہے
عشق تمہارا کھیل ہے باز آیا اس کھیل سے میں
میرے ساتھ ہمیشہ بے ایمانی ہوتی ہے
کیوں اپنی تاریخ سے نالاں ہیں اس شہر کے لوگ
ڈھ دیتے ہیں جو تعمیر پرانی ہوتی ہے
یہ نکتہ اک قصہ گو نے مجھ کو سمجھایا
ہر کردار کے اندر ایک کہانی ہوتی ہے
اتنی ساری یادوں کے ہوتے بھی جب دل میں
ویرانی ہوتی ہے تو حیرانی ہوتی ہے
غزل
اس لمحے تشنہ لب ریت بھی پانی ہوتی ہے
افضل خان