اس کو نغموں میں سمیٹوں تو بکا جانے ہے
گریۂ شب کو جو نغمے کی صدا جانے ہے
میں تری آنکھوں میں اپنے لیے کیا کیا ڈھونڈوں
تو مرے درد کو کچھ مجھ سے سوا جانے ہے
اس کو رہنے دو مرے زخموں کا مرہم بن کر
خون دل کو جو مرے رنگ حنا جانے ہے
میری محرومیٔ فرقت سے اسے کیا لینا
وہ تو آہوں کو بھی مانند صبا جانے ہے
ایک ہی دن میں ترے شہر کی مسموم فضا
میرے پیرہن سادہ کو ریا جانے ہے
میں کبھی تیرے دریچے میں کھلا پھول بھی تھا
آج کیا ہوں ترے گلشن کی ہوا جانے ہے
مجھ سے کہتا ہے مرا شوخ کہ اقبال متینؔ
تم رہے رات کہاں یہ تو خدا جانے ہے
غزل
اس کو نغموں میں سمیٹوں تو بکا جانے ہے
اقبال متین