EN हिंदी
اس کو ہے عشق بتانا بھی نہیں چاہتا ہے | شیح شیری
usko hai ishq batana bhi nahin chahta hai

غزل

اس کو ہے عشق بتانا بھی نہیں چاہتا ہے

فرحت احساس

;

اس کو ہے عشق بتانا بھی نہیں چاہتا ہے
اور یہ بات چھپانا بھی نہیں چاہتا ہے

سوچتا رہتا ہے دن بھر کہ مری رات میں آئے
اپنے دن کو یہ جتانا بھی نہیں چاہتا ہے

شاعری کو مرا اظہار سمجھتا ہے مگر
پردۂ شعر اٹھانا بھی نہیں چاہتا ہے

سائے کو جستجوئے جسم بہت ہے پھر بھی
پہلوئے جسم میں آنا بھی نہیں چاہتا ہے

ایسا لگتا ہے کہ وہ پا بھی چکا ہے مجھ کو
جو بظاہر مجھے پانا بھی نہیں چاہتا ہے

فرحتؔ احساس کو ہے ساری حقیقت معلوم
محفل وہم سے جانا بھی نہیں چاہتا ہے