اس کو دنیا اور نہ عقبیٰ چاہئے
قیس لیلیٰ کا ہے لیلیٰ چاہئے
اب جو کچھ کرنا ہے کرنا چاہئے
آج ہی سے فکر فردا چاہئے
ان بتوں سے دل لگانے کے لیے
سچ ہے پتھر کا کلیجہ چاہئے
دیکھنا ان کا تو قسمت میں نہیں
دیکھنے والے کو دیکھا چاہئے
وہ نہیں آئے تو وعدے پر نہ آئیں
اے اجل تجھ کو تو آنا چاہئے
مجھ سے نفرت ہے تو نفرت ہی سہی
چاہئے غیروں کو اچھا چاہئے
خلد والوں کو دکھانے کے لئے
اک ترے کوچہ کا نقشہ چاہئے
آ کے اب جاتا کہاں ہے تیر ناز
تجھ کو میرے دل میں رہنا چاہئے
توڑ کر بیدمؔ بت پندار کو
دیر کو کعبہ بنانا چاہئے
غزل
اس کو دنیا اور نہ عقبیٰ چاہئے
بیدم شاہ وارثی