EN हिंदी
اس کی یادیں مہکتی رہتی ہیں | شیح شیری
uski yaaden mahakti rahti hain

غزل

اس کی یادیں مہکتی رہتی ہیں

صغیر عالم

;

اس کی یادیں مہکتی رہتی ہیں
میری سانسیں مہکتی رہتی ہیں

اس کو دیکھا تھا خواب میں اک دن
اب بھی آنکھیں مہکتی رہتی ہیں

وو مرے ساتھ تو نہیں ہے مگر
اس کی باتیں مہکتی رہتی ہیں

اس کی چاہت کے پھول کھلتے ہیں
دل کی شاخیں مہکتی رہتی ہیں

یوں دھڑکتا ہے کوئی سینہ میں
میری راتیں مہکتی رہتی ہیں