اس کی وفا نہ میری وفا کا سوال تھا
دونوں ہی چپ تھے صرف انا کا سوال تھا
اس کشمکش میں ختم ہوا رات کا سفر
ضد تھی مری تو اس کی حیا کا سوال تھا
سب منتظر تھے آسماں دیتا ہے کیا جواب
پیاسے لبوں پہ کالی گھٹا کا سوال تھا
مجبور ہم تھے اور وہ مختار تھا مگر
دونوں کے بیچ دست دعا کا سوال تھا
جانا تھا میکدے سے ہمیں کوئے یار تک
لیکن ہماری لغزش پا کا سوال تھا
تقسیم کرنے نکلا تھا وہ روشنی مگر
جلتے ہوئے دئے کو ہوا کا سوال تھا
داناؔ مجھے ازل سے غزل کی تلاش تھی
یہ میری زندگی کی ادا کا سوال تھا
غزل
اس کی وفا نہ میری وفا کا سوال تھا
عباس دانا