EN हिंदी
اس کی تصویر کیا لگی ہوئی ہے | شیح شیری
uski taswir kya lagi hui hai

غزل

اس کی تصویر کیا لگی ہوئی ہے

وسیم تاشف

;

اس کی تصویر کیا لگی ہوئی ہے
پورے کمرے میں روشنی ہوئی ہے

کچھ بھی ترتیب میں نہیں تھا یہاں
اس کے آنے سے بہتری ہوئی ہے

دل کسی اور جا اڑا ہوا ہے
روح کسی اور میں پھنسی ہوئی ہے

کیسے کہہ دوں میں حال دل اس سے
وہ مرے سامنے بڑی ہوئی ہے

جیت جاتی ہے مجھ سے باتوں میں
بڑے اسکول کی پڑھی ہوئی ہے

دوست تو وہ بہت پرانی تھی
ہاں محبت نئی نئی ہوئی ہے

اس کے رونے سے موسموں میں نمی
اس کے ہنسنے سے دھوپ سی ہوئی ہے

میرے شعروں میں اور کچھ نہ سہی
اس کی خوشبو رچی بسی ہوئی ہے

اب تو حالات کافی بہتر ہیں
ورنہ پہلے تو شاعری ہوئی ہے

آپ مت ڈھونڈیے گا کچھ اس میں
یہ غزل اس کے نام کی ہوئی ہے