اس کی صورت اس کی آنکھیں اس کا چہرا بھول گئے
جس رستے پر برسوں بھٹکے ہم وہ رستا بھول گئے
تیز ہوا کے ظالم جھونکے لمحہ لمحہ ساتھ رہے
لمحہ لمحہ اک مدت تک درد جو اٹھا بھول گئے
صحرا صحرا چلتے چلتے کچھ ایسے مانوس ہوئے
اپنے اپنے شہر کا راہی گوشہ گوشہ بھول گئے
پگڈنڈی جو رنج و الم کو جاتی تھی وہ یاد نہیں
خوشیوں کا بھی شیش محل میں ایک تھا ڈیرا بھول گئے
کہتے ہیں کچھ دوست ہمارے ہم کافی متوازن ہیں
اس منزل تک آتے آتے جانے کیا کیا بھول گئے
غزل
اس کی صورت اس کی آنکھیں اس کا چہرا بھول گئے
انوار حبیب