EN हिंदी
اس کی صورت اس کی آنکھیں اس کا چہرا بھول گئے | شیح شیری
uski surat uski aankhen us ka chehra bhul gae

غزل

اس کی صورت اس کی آنکھیں اس کا چہرا بھول گئے

انوار حبیب

;

اس کی صورت اس کی آنکھیں اس کا چہرا بھول گئے
جس رستے پر برسوں بھٹکے ہم وہ رستا بھول گئے

تیز ہوا کے ظالم جھونکے لمحہ لمحہ ساتھ رہے
لمحہ لمحہ اک مدت تک درد جو اٹھا بھول گئے

صحرا صحرا چلتے چلتے کچھ ایسے مانوس ہوئے
اپنے اپنے شہر کا راہی گوشہ گوشہ بھول گئے

پگڈنڈی جو رنج و الم کو جاتی تھی وہ یاد نہیں
خوشیوں کا بھی شیش محل میں ایک تھا ڈیرا بھول گئے

کہتے ہیں کچھ دوست ہمارے ہم کافی متوازن ہیں
اس منزل تک آتے آتے جانے کیا کیا بھول گئے