اس کی گلی میں ظرف سے بڑھ کر ملا مجھے
اک پیالہ جستجو تھی سمندر ملا مجھے
میں چل پڑا تھا اور کسی شاہراہ پر
خنجر بہ دست یادوں کا لشکر ملا مجھے
دریائے شب سے پار اترنا محال تھا
ٹوٹا ہوا سفینۂ خاور ملا مجھے
تاروں میں اس کا عکس ہے پھولوں میں اس کا رنگ
میں جس طرف گیا مرا دلبر ملا مجھے
ہر ذرہ با کمال ہے ہر پتا بے مثال
دنیا میں خود سے کوئی نہ کم تر ملا مجھے
کب سے بھٹک رہا ہوں میں اس دشت میں مگر
خود سے کبھی ملا نہ ترا در ملا مجھے
ہوتا نہیں ہے تجھ پہ کسی بات کا اثر
لگتا ہے تیرے روپ میں پتھر ملا مجھے
بے کیف کٹ رہی تھی مسلسل یہ زندگی
پھر خواب میں وہ خواب سا پیکر ملا مجھے
اس بات پر کروں گا میں دن رات احتجاج
کس جرم میں یہ خاک کا بستر ملا مجھے
مجھ کو نہیں رہی کبھی منظر کی جستجو
گھر کے قریب کوئے ستم گر ملا مجھے
جب تک رہا میں خود میں بھٹکتا رہا یہاں
جب خود کو کھو دیا تو ترا در ملا مجھے
مٹی میں ڈھونڈتا ہوا کچھ بوڑھا آسماں
میں جس طرف گیا یہی منظر ملا مجھے
کرتے ہیں لوگ حسن سے یاں ناروا سلوک
روتے ہوئے ہمیشہ گل تر ملا مجھے
غزل
اس کی گلی میں ظرف سے بڑھ کر ملا مجھے
فواد احمد