EN हिंदी
اس کی آنکھوں پہ مان تھا ہی نہیں | شیح شیری
uski aankhon pe man tha hi nahin

غزل

اس کی آنکھوں پہ مان تھا ہی نہیں

ممتاز گورمانی

;

اس کی آنکھوں پہ مان تھا ہی نہیں
خواب تھے خواب دان تھا ہی نہیں

میں تعاقب میں چل پڑا جس کے
دھول تھی کاروان تھا ہی نہیں

دو زمیں زاد جس میں رہ سکتے
اس قدر آسمان تھا ہی نہیں

گر پڑا ہوں تو راستے نے کہا
تیرا مجھ پر تو دھیان تھا ہی نہیں

ایک خواہش تھی دو دلوں کے بیچ
اور کچھ درمیان تھا ہی نہیں

ہم نے پھولوں سے خوب باتیں کیں
باغ میں باغبان تھا ہی نہیں

اس نے چاہا کہ جانا جاؤں میں
اس سے پہلے جہان تھا ہی نہیں

عمر اس میں گزار دی ممتازؔ
وہ جو میرا مکان تھا ہی نہیں