اس کی آنکھوں میں کچھ نمی سی ہے
وقت کی نبض بھی تھمی سی ہے
ہر طرف جوں کی توں ہے ہر اک شے
کیوں طبیعت میں برہمی سی ہے
کوئی اب تک سمجھ نہیں پایا
زندگی گونگے آدمی سی ہے
میری جاں تیری سرخیٔ لب میں
خون دل کی مرے کمی سی ہے
اس سے حاصل نہیں فرار کبھی
درد اک چیز لازمی سی ہے
وہ فسردہ نظر نہیں آتا
صرف پوشاک ماتمی سی ہے
میرا دل بھاری ہو گیا ہے کمالؔ
اس کی یادوں کی تہ جمی سی ہے
غزل
اس کی آنکھوں میں کچھ نمی سی ہے
احمد کمال حشمی