اس کے کوچے میں بہت رہتے ہیں دیوانے پڑے
ان میں دیکھا تو میاں رنگیںؔ نہ پہچانے پڑے
میں سفر میں ہوں اور اس کو غیر بہکاتے ہیں واں
مجھ کو اب کاغذ کے گھوڑے یاں سے دوڑنے پڑے
ساقیا تیری نگاہ ناز کے باعث سے دیکھ
جام و خم اوندھے ہیں اور تلپٹ ہیں پیمانے پڑے
دوستوں کے کہنے سننے سے مجھے مجبور ہو
زخم دل جراح کو اے وائے دکھلانے پڑے
اب غزل اک اور رنگیںؔ تو بدل کر لکھ ردیف
قافیہ پھر یہ مکرر تجھ کو کہہ جانے پڑے
غزل
اس کے کوچے میں بہت رہتے ہیں دیوانے پڑے
رنگیں سعادت یار خاں