EN हिंदी
اس کے حصار خواب کو مت کرب ذات کر | شیح شیری
uske hisar-e-KHwab ko mat karb-e-zat kar

غزل

اس کے حصار خواب کو مت کرب ذات کر

ناہید ورک

;

اس کے حصار خواب کو مت کرب ذات کر
اس خوشبوئے خیال کو تو کائنات کر

دل کب تلک جدائی کی شامیں منائے گا
میری طرف کبھی تو نسیم حیات کر

میں اک طویل راستے پر ہوں کھڑی ہوئی
یا حبس تیرگی لے یا ہاتھوں میں ہاتھ کر

دھیمے سروں میں چھیڑ کے پھر ساز زندگی
تو میرے لہجے میں بھی کبھی مجھ سے بات کر

وہ ہجرتیں ہوں، ہجر ہو یا قصۂ وصال
آ پھر سے میرے نام سبھی واقعات کر

پیروں سے اس کے نام کے رستے لپٹ گئے
اب تو یقیں کے شہر میں ناہیدؔ رات کر