اس کے چہرے پہ تبسم کی ضیا آئے گی
وہ مجھے یاد کرے گا تو حیا آئے گی
اوڑھ کر جسم پہ یادوں کی ردا آئے گی
جب بھی ماضی کے جھروکوں سے ہوا آئے گی
کون مظلوم کی فریاد سنے گا نا حق
لوٹ کر دشت میں خود اپنی صدا آئے گی
کس قدر بکھرا ہوا ہوں میں بچھڑ کے تجھ سے
یاد اب کس کی مجھے تیرے سوا آئے گی
بند کمروں میں کسی کو بھی یہ احساس نہ تھا
در کھلیں گے تو بہت تیز ہوا آئے گی
غیر مانوس فضاؤں میں تو خوش ہوں لیکن
جانے کس موڑ پہ مانوس فضا آئے گی
نام تو اپنا گنہ گاروں کی فہرست میں لکھ
تیرے حصے میں بھی رنگین قبا آئے گی
زندگی سب سے جدا گزرے گی اپنی انجمؔ
موت بھی آئی تو وہ سب سے جدا آئے گی
غزل
اس کے چہرے پہ تبسم کی ضیا آئے گی
آنند سروپ انجم