اس کا خیال دل میں گھڑی دو گھڑی رہے
پھر اس کے بعد میز پہ چائے پڑی رہے
ایسا نہیں کہ ہم کریں باتیں نہ بے حساب
لیکن یہ کیا کہ کیل سی دل میں گڑی رہے
پھر گھر میں ایک آہنی پنجرہ دکھائی دے
کھڑکی میں کافی دیر جو لڑکی کھڑی رہے
بکھری ہو جیسے چاندنی برگ گلاب پر
مسکان اس کے ہونٹوں پہ ایسے پڑی رہے
دل میں خوشی کے پھوٹتے یوں ہی رہیں انار
تیری ہنسی کی یوں ہی سدا پھلجڑی رہے
کھڑکی تو شاذؔ بند میں کرتا ہوں بار بار
لیکن ہوائے شوق کہ ضد پر اڑی رہے
غزل
اس کا خیال دل میں گھڑی دو گھڑی رہے
زکریا شاذ