اس کا خیال آتے ہی منظر بدل گیا
مطلع سنا رہا تھا کہ مقطع پھسل گیا
بازی لگی ہوئی تھی عروج و زوال کی
میں آسماں مزاج زمیں پر مچل گیا
چاروں طرف اداس سفیدی بکھر گئی
وہ آدمی تو شہر کا منظر بدل گیا
تم نے جمالیات بہت دیر سے پڑھی
پتھر سے دل لگانے کا موقع نکل گیا
سارا مزاج نور تھا سارا خیال نور
اور اس کے باوجود شرارے اگل گیا

غزل
اس کا خیال آتے ہی منظر بدل گیا
رؤف رضا