EN हिंदी
اس کا ہے عزم سفر اور نکھرنے والا | شیح شیری
us ka hai azm-e-safar aur nikharne wala

غزل

اس کا ہے عزم سفر اور نکھرنے والا

دوجیندر دوج

;

اس کا ہے عزم سفر اور نکھرنے والا
سخت موسم سے مسافر نہیں ڈرنے والا

چار گر تجھ سے نہیں کوئی توقع مجھ کو
درد ہوتا ہے دوا حد سے گزرنے والا

نا خدا تجھ کو مبارک ہو خدائی تیری
ساتھ تیرے میں نہیں پار اترنے والا

اس پہ احسان یہ کرنا نہ اٹھانا اس کو
اپنے پیروں پہ کھڑا ہوگا وہ گرنے والا

پار کرنے تھے اسے کتنے سوالوں کے بھنور
اٹکلیں چھوڑ گیا ڈوب کے مرنے والا

میں اڑانوں کا طرفدار اسے کیسے کہوں
بال و پر جو ہے پرندوں کے کترنے والا

کیوں بھلا میرے لئے اتنے پریشاں ہو تم
ایک پتہ ہی تو ہوں سوکھ کے جھرنے والا

اپنی نظروں سے گرا ہے جو کسی کا بھی نہیں
ساتھ کیا دے گا ترا خود سے مکرنے والا

گرد حالات کی اب ایسی جمی ہے تجھ پر
آئینے عکس نہیں کوئی ابھرنے والا

یہ زمیں وہ تو نہیں جس کا تھا وعدا تیرا
کوئی منظر تو ہو آنکھوں میں ٹھہرنے والا