اس ایک شخص کا کوئی پتہ نہیں ملتا
کہ اس کے بعد تو کچھ بھی نیا نہیں ملتا
وہ آئنہ سے بھی نظریں چرا رہا ہوگا
کہ اس کا روپ ہی اس سے ذرا نہیں ملتا
وہ دھوپ چھاؤں کرے کہکشاں بہار کرے
وہ عرض و طول کے اندر بندھا نہیں ملتا
وہ جسم روح خلا آسمان ہے کیا ہے
کہ رنگ کوئی ہو اس سے جدا نہیں ملتا
کبھی کبھی ہی خزانے نصیب ہوتے ہیں
بنا بنایا ہوا سب سدا نہیں ملتا
بنا تو رکھا ہے منصف کو اپنا پہرے دار
وہ اپنے جرم سے لیکن رہا نہیں ملتا
اے کائنات ذرا مٹھیاں تو کھول کبھی
پتہ جو رکھتا ہو مالک ترا نہیں ملتا
غزل
اس ایک شخص کا کوئی پتہ نہیں ملتا
وشال کھلر