اس چشم فسوں گر کے پیمانے کی باتیں ہوں
میخانے میں بیٹھے ہیں میخانے کی باتیں ہوں
زلف و لب و عارض کی جنت میں پہنچ جائیں
اس حسن مجسم کے کاشانے کی باتیں ہوں
لوٹی ہے صبا حل کر اس جان بہاراں سے
ارمانوں کی کلیوں کے کھل جانے کی باتیں ہوں
پھر دکھنے لگے شانے بار غم ہستی سے
پھر شانے پہ زلفوں کے لہرانے کی باتیں ہوں
پھر وقت کے سینے کی دھڑکن نہ سنائی دے
پھر جام کے شیشے سے ٹکرانے کی باتیں ہوں
اس دور حقیقت میں افسانہ سہی الفت
کچھ رات کٹے آؤ افسانے کی باتیں ہوں
الفاظ سے کھینچیں ہم تصویر لب شیریں
زہر غم دنیا کو پی جانے کی باتیں ہوں
غزل
اس چشم فسوں گر کے پیمانے کی باتیں ہوں
منظر سلیم