اس بت نے گلابی جو اٹھا منہ سے لگائی
شیشے میں عجب آن سے جھمکے تھی خدائی
عالم میں نشے کے شب مہتاب نے تیرے
خورشید سے مکھڑے نے طلسمات دکھائی
گو غیر سے ملنے کی قسم کھاتے ہو پیارے
چھپتی نہیں وہ بات جو ہو دل سے بنائی
واللہ ہمیں عشق کی سب بھول ہوئی چال
کافر تری رفتار نے پھر یاد دلائی
ہر دم تو بھرا شیشہ جھکاتا ہے نشہ میں
ڈرتا ہوں کہ تیری نہ مڑک جائے کلائی
آئینہ نمو پوش ہوا عشق میں تیرے
چار ابروؤں کی لے کے فقیرانہ صفائی
ہم جھوٹ کہیں تو نہ ہو دیدار خدا کا
ہے روز قیامت تری اک شب کی جدائی
عاشق کو محبؔ سلطنت ہر دو جہاں ہے
گر یار کے کوچہ کی میسر ہو گدائی
غزل
اس بت نے گلابی جو اٹھا منہ سے لگائی
ولی اللہ محب