اس بت کو ذرا چھو کے تو دیکھیں کہ وہ کیا ہے
پتھر ہے کہ اک موم کے سانچے میں ڈھلا ہے
اس نے مجھے اپنا کبھی سمجھا نہیں لیکن
جس سمت گیا ہوں وہ مرے ساتھ رہا ہے
جنگل ہے درندوں کا کوئی ساتھ نہیں ہے
کس جرم کی پاداش میں بن باس ملا ہے
تجھ پر بھی ہر اک سمت سے پتھراؤ ہوا ہے
مجھ پر بھی ہر اک سمت سے پتھراؤ ہوا ہے
مجھ کو تری آواز کا سایہ ہی بہت ہے
یہ بحث ہے بے کار کہ تو مجھ سے جدا ہے
چہرے جو ہیں کشکول ہیں اجسام کھنڈر ہیں
ہر شخص یہاں وقت کا آئینہ بنا ہے
ہر ہاتھ میں ہے گیان کی پستک مگر انجمؔ
اس دور کا انسان بھی بوجہل رہا ہے

غزل
اس بت کو ذرا چھو کے تو دیکھیں کہ وہ کیا ہے
انجم عباسی