اس بت کے پجاری ہیں مسلمان ہزاروں
بگڑے ہیں اسی کفر میں ایمان ہزاروں
دنیا ہے کہ ان کے رخ و گیسو پہ مٹی ہے
حیران ہزاروں ہیں پریشان ہزاروں
تنہائی میں بھی تیرے تصور کی بدولت
دل بستگئ غم کے ہیں سامان ہزاروں
اے شوق تری پستئ ہمت کا برا ہو
مشکل ہوئے جو کام تھے آسان ہزاروں
آنکھوں نے تجھے دیکھ لیا اب انہیں کیا غم
حالانکہ ابھی دل کو ہیں ارمان ہزاروں
چھانے ہیں ترے عشق میں آشفتہ سری نے
دنیائے مصیبت کے بیابان ہزاروں
اک بار تھا سر گردن حسرتؔ پہ رہیں گے
قاتل تری شمشیر کے احسان ہزاروں
غزل
اس بت کے پجاری ہیں مسلمان ہزاروں
حسرتؔ موہانی