اس آنکھ سے وحشت کی تاثیر اٹھا لایا
میں جاگتے رہنے کی تدبیر اٹھا لایا
میں نیت شب خوں سے خیمے میں گیا لیکن
دشمن کے سرہانے سے شمشیر اٹھا لایا
وہ صبح رہائی تھی یا شام اسیری تھی
جب میں در زنداں سے زنجیر اٹھا لایا
آوارہ مزاجی پر حرف آنے سے پہلے ہی
دل تیرے تغافل کی تصویر اٹھا لایا
اے خواب پذیرائی تو کیوں مری آنکھوں میں
اندیشۂ دنیا کی تعبیر اٹھا لایا
وہ سنگ ملامت تھا جس کو ترا دل کہہ کر
اس کوچے سے مجھ جیسا رہگیر اٹھا لایا
اس شخص سے میں سب کو عجلت میں ملا بیٹھا
اور اپنے لیے کیسی تاخیر اٹھا لایا
میدان شکایت سے کیا اپنے سوا لاتا
اک رنج تھا میں جس کی تعمیر اٹھا لایا
اس بزم سخن میں ہم کیا پہنچے کہ شور اٹھا
لو عزمؔ کوئی زخمی تحریر اٹھا لایا

غزل
اس آنکھ سے وحشت کی تاثیر اٹھا لایا
عزم بہزاد