عروج اس کے لیے تھا زوال میرے لیے
نظر نظر میں رہا اک سوال میرے لیے
حقیقتیں سبھی منسوب ان کے ناموں سے
سراب خواب تصور خیال میرے لیے
میں اک پرندہ ہوں مصروف رزق کی خاطر
ادھر ہیں اہل نشیمن نڈھال میرے لیے
دیار غیر میں شام و سحر اذیت ہے
دیار دل میں ٹھہرنا محال میرے لیے
میں اپنے حصے کی فرقت کے بعد آؤں گا
ذرا سلیقے سے خود کو سنبھال میرے لیے
وہ منتظر تھا شراب نظر لیے ذاکرؔ
گھٹا نے کھول کے رکھے تھے بال میرے لیے
غزل
عروج اس کے لیے تھا زوال میرے لیے
ذاکر خان ذاکر