EN हिंदी
عروج اس کے لیے تھا زوال میرے لیے | شیح شیری
uruj uske liye tha zawal mere liye

غزل

عروج اس کے لیے تھا زوال میرے لیے

ذاکر خان ذاکر

;

عروج اس کے لیے تھا زوال میرے لیے
نظر نظر میں رہا اک سوال میرے لیے

حقیقتیں سبھی منسوب ان کے ناموں سے
سراب خواب تصور خیال میرے لیے

میں اک پرندہ ہوں مصروف رزق کی خاطر
ادھر ہیں اہل نشیمن نڈھال میرے لیے

دیار غیر میں شام و سحر اذیت ہے
دیار دل میں ٹھہرنا محال میرے لیے

میں اپنے حصے کی فرقت کے بعد آؤں گا
ذرا سلیقے سے خود کو سنبھال میرے لیے

وہ منتظر تھا شراب نظر لیے ذاکرؔ
گھٹا نے کھول کے رکھے تھے بال میرے لیے