انس تو ہوتا ہے دیوانے سے دیوانے کو
کوئی اپنا کے دکھائے کبھی انجانے کو
خودکشی جیسا کوئی جرم نہیں دنیا میں
کوئی بتلاتا نہیں جا کے یہ پروانے کو
ساقیٔ وقت نے جب چھین لی ہاتھوں سے شراب
میں نے ٹکرا دیا پیمانے سے پیمانے کو
خاک زادہ نہیں پیدا ہوا ایسا کوئی
جو حقیقت میں بدل دے مرے افسانے کو
ابرہہ جیسا اگر ہو گیا پیدا کوئی
کیا بچا پائیں گے ہم اپنے خدا خانے کو
ایک مفسد کی یہ پھیلائی ہوئی ہے افواہ
رات بھر شمع سے نفرت رہی پروانے کو
غزل
انس تو ہوتا ہے دیوانے سے دیوانے کو
عبرت بہرائچی