EN हिंदी
انہیں قید کرنے کی کوشش ہے کیسی | شیح شیری
unhen qaid karne ki koshish hai kaisi

غزل

انہیں قید کرنے کی کوشش ہے کیسی

یوسف جمال

;

انہیں قید کرنے کی کوشش ہے کیسی
خلا میں صداؤں کی بندش ہے کیسی

نہاں مجھ میں ہے اور میرے بدن کا
لہو چاٹتی ہے جو خواہش ہے کیسی

مجھے مسکرانے کی کس نے سزا دی
مری ذات پر یہ نوازش ہے کیسی

ملی خوشبوؤں کے جزیرے کی دعوت
مجھے پھر رلانے کی سازش ہے کیسی

مقدر میں ہے جب ہمارے اندھیرے
نظر میں سرابی سی تابش ہے کیسی

نگر ہے یہ پھولوں کا تو پھر یہاں پر
چٹانیں اگانے کی کاوش ہے کیسی

بہت شاد آباد رکھنا تھا اس کو
زمین پر لہو کی یہ بارش ہے کیسی