EN हिंदी
ان سے بھی کہاں میری حمایت میں ہلا سر | شیح شیری
un se bhi kahan meri himayat mein hila sar

غزل

ان سے بھی کہاں میری حمایت میں ہلا سر

عقیل نعمانی

;

ان سے بھی کہاں میری حمایت میں ہلا سر
کہتے تھے جو ہر بات پہ حاضر ہے مرا سر

ہاں یہ ہے کہ آہستہ کلامی کا ہوں مجرم
خاموش مزاجی تو ہے الزام سراسر

جس روز سے آیا ہے یہ قاتل کی نظر میں
اس روز سے جھکنے کی ادا بھول گیا سر

غیرت کے مقابل تھی ضرورت بھی ہوس بھی
یہ معرکہ مشکل تھا مگر ہم نے کیا سر

اک روز اک انساں نے مجھے کہہ دیا انساں
اس روز بہت دیر نہ سجدے سے اٹھا سر