EN हिंदी
ان لبوں کی یاد آئی گل کے مسکرانے سے | شیح شیری
un labon ki yaad aai gul ke muskurane se

غزل

ان لبوں کی یاد آئی گل کے مسکرانے سے

فیاض احمد

;

ان لبوں کی یاد آئی گل کے مسکرانے سے
زخم دل ابھر آئے پھر بہار آنے سے

جانے تھی گریز ان کو یا کہ شرم محفل میں
رات مجھ سے کترائے وہ نظر ملانے سے

راز جو چھپائے تھے آج سب پہ ظاہر ہیں
کچھ مری کہانی سے کچھ ترے فسانے سے

حال جو ہمارا ہے سب تو ان پہ روشن ہے
پھر بتاؤں کیا ہوگا حال دل سنانے سے

ان کو ہم سے کیا مطلب ہم کو کیا غرض فیاضؔ
ترک عشق کر بیٹھے ہم تو اک زمانے سے