ان لبوں کی یاد آئی گل کے مسکرانے سے
زخم دل ابھر آئے پھر بہار آنے سے
جانے تھی گریز ان کو یا کہ شرم محفل میں
رات مجھ سے کترائے وہ نظر ملانے سے
راز جو چھپائے تھے آج سب پہ ظاہر ہیں
کچھ مری کہانی سے کچھ ترے فسانے سے
حال جو ہمارا ہے سب تو ان پہ روشن ہے
پھر بتاؤں کیا ہوگا حال دل سنانے سے
ان کو ہم سے کیا مطلب ہم کو کیا غرض فیاضؔ
ترک عشق کر بیٹھے ہم تو اک زمانے سے

غزل
ان لبوں کی یاد آئی گل کے مسکرانے سے
فیاض احمد