ان کو جو شغل ناز سے فرصت نہ ہو سکی
ہم نے یہ کہہ دیا کہ محبت نہ ہو سکی
شکر جفا بھی اہل رضا نے کیا ادا
ان سے یہی نہیں کہ شکایت نہ ہو سکی
شب کا یہ حال ہے کہ تری یاد کے سوا
دل کو کسی خیال سے راحت نہ ہو سکی
پابوس کی بھی ہم کو اجازت نہ دے سکے
اتنی بھی تم سے قدر محبت نہ ہو سکی
غرق سرور و سور مجھے پا کے دفعتاً
ناصح سے ترک مے کی نصیحت نہ ہو سکی
خاموشیوں کا راز محبت وہ پا گئے
گو ہم سے عرض حال کی جرأت نہ ہو سکی
کر دی زبان شوق نے سب شرح آرزو
الفاظ میں اگرچہ صراحت نہ ہو سکی
لطف مزید کی میں تمنا تو کر سکا
تم یہ تو کہہ سکے کہ قناعت نہ ہو سکی
کیوں اتنی جلد ہو گئے گھبرا کے ہم فنا
اے درد یار کچھ تری خدمت نہ ہو سکی
واعظ کو اپنے عیب ریا کا رہا خیال
رندوں کی صاف صاف مذمت نہ ہو سکی
ارباب قال حال پہ غالب نہ آ سکے
زاہد سے عاشقوں کی امامت نہ ہو سکی
ایسا بھی کیا عتاب کہ ساقی بچی کھچی
آخر میں کچھ بھی ہم کو عنایت نہ ہو سکی
ان سے میں اپنے دل کا تقاضا نہ کر سکا
یہ بات تھی خلاف مروت نہ ہو سکی
کیوں آئے ہوش میں جو عبادت نہ کر سکے
پیر مغاں کی ہم سے اطاعت نہ ہو سکی
حسرتؔ تری نگاہ محبت کو کیا کہوں
محفل میں رات ان سے شرارت نہ ہو سکی
غزل
ان کو جو شغل ناز سے فرصت نہ ہو سکی
حسرتؔ موہانی