ان کو جگر کی جستجو ان کی نظر کو کیا کروں
مجھ کو نظر کی آرزو اپنے جگر کو کیا کروں
رات ہی رات میں تمام طے ہوئے عمر کے مقام
ہو گئی زندگی کی شام اب میں سحر کو کیا کروں
وحشت دل فزوں تو ہے حال مرا زبوں تو ہے
عشق نہیں جنوں تو ہے اس کے اثر کو کیا کروں
فرش سے مطمئن نہیں پست ہے نا پسند ہے
عرش بہت بلند ہے ذوق نظر کو کیا کروں
ہائے کوئی دوا کرو ہائے کوئی دعا کرو
ہائے جگر میں درد ہے ہائے جگر کو کیا کروں
اہل نظر کوئی نہیں اس لیے خود پسند ہوں
آپ ہی دیکھتا ہوں میں اپنے ہنر کو کیا کروں
ترک تعلقات پر گر گئی برق التفات
راہ گزر میں مل گئے راہ گزر کو کیا کروں
غزل
ان کو جگر کی جستجو ان کی نظر کو کیا کروں
حفیظ جالندھری