ان کی نظر کا لطف نمایاں نہیں رہا
ہم پر وہ التفات نگاراں نہیں رہا
دل بستگی و عیش کا ساماں نہیں رہا
خوش باشیٔ حیات کا ساماں نہیں رہا
یہ بھی نہیں کہ گل میں لطافت نہیں رہی
پر جنت نگاہ گلستاں نہیں رہا
ہر بے ہنر سے گرم ہے بازار سفلگی
اہل ہنر کے واسطے میداں نہیں رہا
اپنی زبان اپنا تمدن بدل گیا
لطف کلام اب وہ سخنداں نہیں رہا
کیوں اب طواف کوئے ملامت سے ہے گریز
کیا وہ جنون کوچۂ جاناں نہیں رہا
سیکھا ہے حادثات زمانہ سے کھیلنا
ہم کو ہراس موجۂ طوفاں نہیں رہا
ہر بیت جس کے فیض سے بیت الغزل بنے
اب وہ سرور چشم غزالاں نہیں رہا
دیوانگئ شوق کے قربان جائیے
اب امتیاز جیب و گریباں نہیں رہا
پیر مغاں کی بیعت کامل کے فیض سے
اب شیخ نام کا بھی مسلماں نہیں رہا
ان کی نگاہ ناز کا یہ التفات ہے
چارہ گروں کا زیست پر احساں نہیں رہا
کیا حال ہے تمہارا عزیزان لکھنؤ
تہذیب اہل دلی کا پرساں نہیں رہا
ہر شے ہے اس جہان میں لیکن خدا گواہ
گلزارؔ اس دیار میں انساں نہیں رہا
غزل
ان کی نظر کا لطف نمایاں نہیں رہا
گلزار دہلوی