ان کی فطرت اس کو کہئے یا کہ فطرت کا اصول
ڈوب جاتے ہیں ستارے اور بکھر جاتے ہیں پھول
اک نظر کی کیا حقیقت ہے مگر اے دوستو
عمر بھر کی موت بن جاتی ہے اک لمحے کی بھول
ہم تو ہیں ان محفلوں کے آج تک مارے ہوئے
جن میں نغموں کی ہے شورش جن میں زلفوں کی ہے دھول
اور جو کچھ بھی ہے ان کے درمیاں وہ ہے گراں
زندگی ارزاں ہے اور ہے موت بھی سہل الحصول
آج تک دہکی ہوئی سینے میں ہے عارض کی آگ
دل میں اب تک چبھ رہے ہیں ان کی پلکوں کے ببول
دے رہے ہیں اس طرح وہ کاکویؔ صاحب کی داد
پوچھتے ہیں آپ کے اشعار کی شان نزول
غزل
ان کی فطرت اس کو کہئے یا کہ فطرت کا اصول
ارشد کاکوی