EN हिंदी
ان کی فطرت اس کو کہئے یا کہ فطرت کا اصول | شیح شیری
unki fitrat usko kahiye ya ki fitrat ka usul

غزل

ان کی فطرت اس کو کہئے یا کہ فطرت کا اصول

ارشد کاکوی

;

ان کی فطرت اس کو کہئے یا کہ فطرت کا اصول
ڈوب جاتے ہیں ستارے اور بکھر جاتے ہیں پھول

اک نظر کی کیا حقیقت ہے مگر اے دوستو
عمر بھر کی موت بن جاتی ہے اک لمحے کی بھول

ہم تو ہیں ان محفلوں کے آج تک مارے ہوئے
جن میں نغموں کی ہے شورش جن میں زلفوں کی ہے دھول

اور جو کچھ بھی ہے ان کے درمیاں وہ ہے گراں
زندگی ارزاں ہے اور ہے موت بھی سہل الحصول

آج تک دہکی ہوئی سینے میں ہے عارض کی آگ
دل میں اب تک چبھ رہے ہیں ان کی پلکوں کے ببول

دے رہے ہیں اس طرح وہ کاکویؔ صاحب کی داد
پوچھتے ہیں آپ کے اشعار کی شان نزول