ان کی دیرینہ ملاقات جو یاد آتی ہے
چشم تر صورت پیمانہ چھلک جاتی ہے
دل میں آتے ہی سر شام تصور تیرا
رات ساری مری آنکھوں میں گزر جاتی ہے
یہ جنوں ہے کہ محبت کی علامت کوئی
تیری صورت مجھے ہر شے میں نظر آتی ہے
ساقیا جس پہ نوازش ہو کرم ہو تیرا
اس کے ہر جام کی تاثیر بدل جاتی ہے
جب بھی پلکوں پہ چمک جاتے ہیں یادوں کے چراغ
نبض کچھ دیر زمانے کی ٹھہر جاتی ہے
یہ بھی اک ان کی نگاہوں کا کرشمہ ہے مبینؔ
زندگی خواب کی صورت میں نظر آتی ہے
غزل
ان کی دیرینہ ملاقات جو یاد آتی ہے
سید مبین علوی خیرآبادی