EN हिंदी
ان کی آرائش سے میرے کام بن جائیں گے کیا | شیح شیری
unki aaraish se mere kaam ban jaenge kya

غزل

ان کی آرائش سے میرے کام بن جائیں گے کیا

ثاقب لکھنوی

;

ان کی آرائش سے میرے کام بن جائیں گے کیا
دل کی گتھی شانہ ہائے زلف سلجھائیں گے کیا

وصل کے وعدے سے خوش ہو کر نہ مر جائیں گے کیا
نامہ بر ہنستا ہوا آتا ہے خود آئیں گے کیا

قیدیٔ غم تربتوں میں اور ان کو یہ خیال
کاٹنے میں اک شب فرقت کے مر جائیں گے کیا

کام اپنا کر چکے اہل وفا شک ہے تو ہو
سر نہیں باقی شہیدوں کے قسم کھائیں گے کیا

عرض مطلب کے لئے اے دل زباں کھلتی نہیں
کچھ اشارے میں کروں گا وہ سمجھ جائیں گے کیا

ہاتھ ادھر اٹھتا نہیں ہے تار ادھر باقی نہیں
دیں گے وہ کیا اور ہم دامن کو پھیلائیں گے کیا

قصۂ فرہاد و مجنوں کیوں سناتے ہو ہمیں
جب پریشانی سے مطلب ہے تو گھبرائیں کیا

مہمان کوئے جاناں ہو کے دل بیتاب ہے
میں تو سمجھاتا نہیں وہ بھی نہ سمجھائیں گے کیا

مست رہتے ہیں ہمیشہ مے فروشان‌‌ جمال
ہم تو مانگیں گے کوئی ساغر وہ فرمائیں گے کیا

کیوں نہ چپ بیٹھوں قفس میں دور ہی فصل بہار
آہ و زاری سے مری موسم بدل جائیں گے کیا

تنکے تنکے کا خدا حافظ چلے ہم باغ سے
الوداع اے آشیاں اب جا کے پھر آئیں گے کیا

دل کی بیماری کا عقدہ کھولنا دشوار ہے
جو نہیں سمجھے وہ ثاقبؔ مجھ کو سمجھائیں گے کیا