EN हिंदी
ان کے سب جھوٹ معتبر ٹھہرے | شیح شیری
un ke sab jhuT moatabar Thahre

غزل

ان کے سب جھوٹ معتبر ٹھہرے

حنا رضوی

;

ان کے سب جھوٹ معتبر ٹھہرے
جو میرے سچ تھے بے اثر ٹھہرے

ہم بھی سو جاں نثار کر دیں گے
ان کی ہم پر جو اک نظر ٹھہرے

تنکا تنکا بکھر گیا آخر
کیسے طوفاں میں کوئی گھر ٹھہرے

دن کی خوشیاں نہ غم کی رات بنیں
وقت کا بھی کبھی سفر ٹھہرے

مسئلے ایک پل میں حل ہو جائیں
تو اگر میرا چار‌ گر ٹھہرے

اس سے کہہ تو دیا چلا جائے
دل یہ کہتا رہا مگر ٹھہرے

کوئی تدبیر ہو وہ لوٹ آئیں
پاؤں تھک جائیں رہ گزر ٹھہرے

جن کہ نسبت سیاہ شب سے نہ ہو
میرے آنگن میں وہ سحر ٹھہرے

ایک آہٹ کی آس میں کب سے
ہیں حناؔ دل کے بام و در ٹھہرے