EN हिंदी
ان کے پیکان پہ پیکان چلے آتے ہیں | شیح شیری
un ke paikan pe paikan chale aate hain

غزل

ان کے پیکان پہ پیکان چلے آتے ہیں

نسیم بھرتپوری

;

ان کے پیکان پہ پیکان چلے آتے ہیں
دل میں گھر کرنے کو مہمان چلے آتے ہیں

دیکھ کر آئے ہیں کیا عارض و گیسو ان کے
لوگ حیران پریشان چلے آتے ہیں

چار انگل کا وہ پرچہ نہیں لکھتے مجھ کو
پاس اغیار کے فرمان چلے آتے ہیں

اپنی محفل میں مجھے دیکھ کے کہتا ہے وہ بت
کیوں مرے گھر میں مسلمان چلے آتے ہیں

بزم اغیار میں کس شخص نے گستاخی کی
کہ وہ خاموش پشیمان چلے آتے ہیں

دوش احباب یہ آگے ہے جنازہ میرا
پیچھے سر پیٹتے ارمان چلے آتے ہیں

کیا بتائیں کہ نسیمؔ آتے ہیں کیوں آپ کے گھر
مفت ہونے کو پشیمان چلے آتے ہیں