EN हिंदी
ان کے جلوے سحر و شام تک آ پہنچے ہیں | شیح شیری
un ke jalwe sahar-o-sham tak aa pahunche hain

غزل

ان کے جلوے سحر و شام تک آ پہنچے ہیں

محمد عباس سفیر

;

ان کے جلوے سحر و شام تک آ پہنچے ہیں
میرے آغاز اب انجام تک آ پہنچے ہیں

حضرت خضر پریشاں نہ ہو آرام کریں
ہم بھی اب منزل آرام تک آ پہنچے ہیں

تہمت عشق میں ہم آج اکیلے تو نہیں
وہ بھی اب مرکز الزام تک آ پہنچے ہیں

مے کشو مژدۂ مستی کہ جناب واعظ
بڑھ کے اب تذکرۂ جام تک آ پہنچے ہیں

اس کو معراج وفا کیوں نہ کہوں جب اکثر
بالارادہ وہ مرے نام تک آ پہنچے ہیں

یہ مرا ضبط کہ میں اپنی جگہ ہوں محتاط
در حقیقت مجھے پیغام تک آ پہنچے ہیں

دیکھ کر تنگ دلی بزم میں ساقی کی سفیرؔ
رند بھی جرأت ناکام تک آ پہنچے ہیں