ان کے جلوے سحر و شام تک آ پہنچے ہیں
میرے آغاز اب انجام تک آ پہنچے ہیں
حضرت خضر پریشاں نہ ہو آرام کریں
ہم بھی اب منزل آرام تک آ پہنچے ہیں
تہمت عشق میں ہم آج اکیلے تو نہیں
وہ بھی اب مرکز الزام تک آ پہنچے ہیں
مے کشو مژدۂ مستی کہ جناب واعظ
بڑھ کے اب تذکرۂ جام تک آ پہنچے ہیں
اس کو معراج وفا کیوں نہ کہوں جب اکثر
بالارادہ وہ مرے نام تک آ پہنچے ہیں
یہ مرا ضبط کہ میں اپنی جگہ ہوں محتاط
در حقیقت مجھے پیغام تک آ پہنچے ہیں
دیکھ کر تنگ دلی بزم میں ساقی کی سفیرؔ
رند بھی جرأت ناکام تک آ پہنچے ہیں

غزل
ان کے جلوے سحر و شام تک آ پہنچے ہیں
محمد عباس سفیر