ان کے جب جب بھی مرے نام لفافے آئے
ساتھ میں لوگوں کے کیا کیا نہ قیافے آئے
وہ صحیفہ ہے مرا دل کہ تری نسبت سے
جس پہ ہر دور میں زخموں کے اضافے آئے
میرے احساس نے خوشبو کو بلایا جب بھی
تیری زلفوں کے مہکتے ہوئے نامے آئے
تجربے عمر کے ہر موڑ پہ منہ موڑ گئے
کام کچھ آئے تو بچپن کے قیافے آئے
آپ ہی آئے نہ آنے کی خبر پہنچائی
ویسے آنے کو بہر رنگ لفافے آئے
غزل
ان کے جب جب بھی مرے نام لفافے آئے
نظر صدیقی