EN हिंदी
ان کا منشا ہے نہ پھیلے خس و خاشاک میں آگ | شیح شیری
un ka mansha hai na phaile KHas-o-KHashak mein aag

غزل

ان کا منشا ہے نہ پھیلے خس و خاشاک میں آگ

فطرت انصاری

;

ان کا منشا ہے نہ پھیلے خس و خاشاک میں آگ
آتش دل نہ لگا دیدۂ نمناک میں آگ

برق غم بن کے جو احساس نظر پھونک گئی
اس قدر تھی ترے اک جملۂ بے باک میں آگ

شعلۂ مے کی نوازش ہے تو لگ جائے گی
ساز ہستی کے ہر اک نغمۂ ناپاک میں آگ

ان کے آنگن میں بھی انگارے برس جائیں گے
آہ سوزاں نہ لگا دامن افلاک میں آگ

قافلے اور بھی منزل کی طرف آتے ہیں
تم سر راہ دباؤ نہ ابھی خاک میں آگ

شکر ہے اس کی تمنا ہوئی پوری یا رب
تیرے دیوانے کی مدت سے رہی تاک میں آگ

چشم فطرت سے ٹپکتا ہے محبت کا جلال
پھیل جائے نہ کہیں عالم ادراک میں آگ