ان کا منشا ہے نہ پھیلے خس و خاشاک میں آگ
آتش دل نہ لگا دیدۂ نمناک میں آگ
برق غم بن کے جو احساس نظر پھونک گئی
اس قدر تھی ترے اک جملۂ بے باک میں آگ
شعلۂ مے کی نوازش ہے تو لگ جائے گی
ساز ہستی کے ہر اک نغمۂ ناپاک میں آگ
ان کے آنگن میں بھی انگارے برس جائیں گے
آہ سوزاں نہ لگا دامن افلاک میں آگ
قافلے اور بھی منزل کی طرف آتے ہیں
تم سر راہ دباؤ نہ ابھی خاک میں آگ
شکر ہے اس کی تمنا ہوئی پوری یا رب
تیرے دیوانے کی مدت سے رہی تاک میں آگ
چشم فطرت سے ٹپکتا ہے محبت کا جلال
پھیل جائے نہ کہیں عالم ادراک میں آگ

غزل
ان کا منشا ہے نہ پھیلے خس و خاشاک میں آگ
فطرت انصاری