EN हिंदी
ان کا غم بھی نہ رہا پاس تو پھر کیا ہوگا | شیح شیری
un ka gham bhi na raha pas to phir kya hoga

غزل

ان کا غم بھی نہ رہا پاس تو پھر کیا ہوگا

شاعر لکھنوی

;

ان کا غم بھی نہ رہا پاس تو پھر کیا ہوگا
لٹ گئی دولت احساس تو پھر کیا ہوگا

کون تا صبح جلائے گا تمنا کے چراغ
شام سے ٹوٹ گئی آس تو پھر کیا ہوگا

جن کی دوری میں وہ لذت ہے کہ بیتاب ہے دل
آ گئے وہ جو کہیں پاس تو پھر کیا ہوگا

تم سے زندہ ہے تمنائے مذاق احساس
تم ہوئے دشمن احساس تو پھر کیا ہوگا

دل غم دوست پہ مغرور بہت ہے لیکن
غم بھی آیا نہ اگر راس تو پھر کیا ہوگا

اپنی مخمور نگاہوں کو نہ دو اذن خرام
بڑھ گئی اور اگر پیاس تو پھر کیا ہوگا

ہم پریشاں تھے پریشاں ہیں پریشاں ہوں گے
تم کو آئی نہ خوشی راس تو پھر کیا ہوگا

عظمت عشق ہے خودداریٔ دل تک شاعرؔ
بجھ گیا شعلۂ احساس تو پھر کیا ہوگا