EN हिंदी
ان کا برباد کرم کہنے کے قابل ہو گیا | شیح شیری
un ka barbaad-e-karam kahne ke qabil ho gaya

غزل

ان کا برباد کرم کہنے کے قابل ہو گیا

باسط بھوپالی

;

ان کا برباد کرم کہنے کے قابل ہو گیا
درد پہلو میں جہاں بھی تھا وہیں دل ہو گیا

بارہا دیکھا ہے دل نے او مرے محو خرام
حشر اٹھا اور ترے قدموں میں شامل ہو گیا

دل جہاں اچھلا فضائے دو جہاں پر چھا گیا
عرصۂ کونین جب سمٹا مرا دل ہو گیا

بے خبر رہنا ہی اچھا اس جہان غیر میں
مٹ گیا جو واقف آداب محفل ہو گیا

جو نگاہ شوق اٹھی حسن بن کر رہ گئی
جو قدم ہم نے اٹھایا نقش منزل ہو گیا

یا کبھی منزل تھی مقصود مذاق جستجو
یا مذاق جستجو مقصود منزل ہو گیا

ہائے باسطؔ یہ مرے خون تمنا کا اثر
اور بھی رنگین کچھ دامان قاتل ہو گیا